(محترم رضیہ مشکور صاحبہ— منٹو صدی منائی جا رہی ہے تو منٹو پر مضامین لکھنے والے بھی کم نہیں ہوں گے۔ میں نے کچھ برس پہلے منٹو پر ٹی وی کے لیے ایک خوبصورت سا پروگرام بنایا تھا— فراڈ منٹو— آپ اور قارئین دیدہ ور کی دلچسپی کے لیے خصوصی طور پر یہ منظرنامہ بھیج رہا ہوں۔ امید ہے، پسند کریں گی۔ ذوقی) کیمرہ اوپن کرتے ہی تھرتھراتی ہوئی لو نظر آتی ہے— شمع کی اس تھرتھراتی لو پر آواز ابھرتی ہے۔ لوگ آتے ہیں اور چلے جاتے ہیں …/ کہانیاں شروع ہوتی ہیں اور ختم ہو جاتی ہیں …/ لیکن کچھ یادگار لمحے ہر بار ہمارے درمیان رہ جاتے ہیں …/ جو ہم سے کہتے ہیں …/ ’یاروں نے کتنی دور بسائی ہیں بستیاں …‘ روشنی کے دائرے کے بیچ اینکر کی انٹری اینکر :آج اس سفر کی شروعات ہم سعادت حسن منٹو سے کرنے جا رہے ہیں۔ منٹو، جس نے اردو افسانے کا رنگ و آہنگ ہی بدل کر رکھ دیا۔ ایک ایسا فنکار جس نے اردو افسانے کو بلندی پر پہنچا دیا اور جس کے بارے میں یہاں تک کہا گیا… ممتاز شیریں کی تصویر (انیمیشن کے ذریعے یہ ایفکٹ پیدا کرنے کی کوشش کی جائے گی کہ ممتاز شیریں ہی بول رہی ہیں ) ممتاز شیریں :منٹو ہمارا سب سے بڑا افسانہ نگار تھا۔ ہندوستان اور پاکستان کا سب سے بڑا افسانہ نگار۔ جس کی تخلیقات کا موازنہ عالمی ادب کے کسی بھی شاہکار سے کیا جا سکتا ہے۔ اگر میں یہ کہوں کہ منٹو ہی ہمارا موپاساں ہیں تو اس میں شک نہیں ہونا چاہئے۔ منٹو اورموپاساں میں بہت کچھ ایک جیسا ہے۔ لیکن یہ بھی سمجھنا ہو گا کہ منٹو نے کبھی موپاساں بننے کی کوشش نہیں کی۔ منٹو خود ہی موپاساں تھا۔ منٹو نے سماج کی گندگی اور برائیوں کو تلخی سے محسوس کیا تھا۔ منٹو نے زندگی کا زہر چکھا تھا۔ اور اس طرح چکھا کہ اس کی کڑواہٹ منہ اور حلق سے اُتر کر اس کی روح میں داخل ہو گئی۔ مگر پھر بھی اُسے انسانیت پر یقین رہا۔ اور موپاساں کی طرح وہ ہمیشہ یہ یقین دلانے کی کوشش کرتا رہا کہ انسانوں میں گندگی بدصورتی یا برائیاں ہوسکتی ہیں۔ مگر اس کے باوجود انسان ہونا فخر کی بات ہے۔ سوپر کیپشن/منٹو کی کہانی، منٹو کی زبانی/فریم کے ایک طرف منٹو کی تصویر/ دوسری طرف لکھا ہوا آئے گا۔ میں منٹو ہوں اس عہد کا سب سے بڑا فراڈ کیمرہ روشنی کے دائرے میں اینکر سے اوپن کرتے ہیں۔ اینکر :اس میں کوئی شک نہیں کہ منٹو ہمارے عہد کا موپاساں تھا۔ ادبی سفر کے سو برسوں میں کوئی دوسرا منٹو پیدا نہیں ہوسکا۔ منٹو ۱۱؍ مئی ۱۹۱۲ سمبرالہ ضلع لدھیانہ میں پیدا ہوئے۔ باپ کا نام مولوی غلام حسین منٹو تھا۔ منٹو کے آباء و اجداد کشمیر کے تھے۔ مگر یہ لوگ امرتسر میں آ کر بس گئے۔ منٹو کی ابتدائی تعلیم امرتسر میں ہوئی۔ بعد میں یہ علی گڑھ میں پڑھتے رہے مگر انٹر تک ہی تعلیم مکمل کرسکے۔ منٹو کی پہلی کہانی ’تماشہ‘ تھی جو ان کے نام کے بغیر ’خلق‘ امرتسر میں شائع ہوئی۔ (وقفہ) اینکر:لیکن یہ تمام باتیں آپ کو میں کیوں بتا رہا ہوں۔ چلئے، منٹو سے ہی سنتے ہیں۔ اس کی آپ بیتی— خود کو فراڈ کہنے والا منٹو شاید دنیا کا پہلا افسانہ نگار تھا جو خود کو ذلیل کرتے ہوئے بھی فخر محسوس کرتا تھا۔ دیکھئے، وہ آپ سے کیا کہہ رہا ہے۔ (ہنستے ہوئے) ہے نا گنجا فرشتہ۔ آواز: سعادت حسن منٹو حاضر ہو۔ پہلا سگمنٹ روشنی کے دائرے میں کردار کے طور پر منٹو خود اپنی کہانی بیان کر رہا ہے۔ منٹو :صاحبان!میرے کے بارے میں اب تک بہت کچھ لکھا اور کہا جا چکا ہے— اعتراف میں کم اور اختلاف میں زیادہ۔ یہ بات اگر پیش نظر رکھا جائے تو کوئی عقلمند منٹو کے بارے میں صحیح رائے قائم نہیں کرسکتا۔ میں یہ بتانے آیا ہوں اور سمجھتا ہوں کہ منٹو کے بارے میں اپنے خیالات ظاہر کرنا بڑا مشکل کام ہے، لیکن ایک لحاظ سے آسان بھی ہے، اس لیے کہ منٹو سے مجھے قربت حاصل رہا ہے… سچ پوچھئے تو میں منٹو کا ہمزاد یعنی وہ جنّ یا شیطان ہوں جو ہر انسان کے ساتھ پیدا ہوتا ہے۔ اب تک اُس شخص کے بارے میں جو کچھ لکھا گیا ہے، مجھے اس پر کوئی اعتراض نہیں، لیکن میں اتنا سمجھتا ہوں کہ جو کچھ اُن مضامین میں پیش کئے گئے ہیں ‘ حقیقت سے دور ہیں۔ بعض لوگ اُسے شیطان کہتے ہیں، بعض گنجا فرشتہ… ذرا ٹھہریئے، میں دیکھ لوں، کہیں یہ کمبخت سن تو نہیں رہا… نہیں نہیں، ٹھیک ہے، مجھے یاد آگیا کہ یہ وہ وقت ہے جب وہ پیا کرتا ہے… اُس کو شام کو چھ بجے کے بعد کڑوا شربت پینے کی عادت ہے۔ کیمرہ عدالت میں بیٹھے لوگوں پر چارج /شور جج: آڈر… آڈر کیمرہ ایک بار پھر منٹو پر فوکس کرتا ہے۔ منٹو:ہم اکٹھّے ہی پیدا ہوئے اور خیال ہے کہ اکٹھا ہی مریں گے، لیکن یہ بھی ہوسکتا ہے کہ سعادت حسن مر جائے اور منٹو نہ مرے، اور مجھے یہ اندیشہ بہت دکھ دیتا ہے، اس لیے کہ میں نے اُس کے ساتھ اپنی دوستی نبھانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی… اگر وہ زندہ رہا اور میں مر گیا تو ایسا ہو گا کہ انڈے کا خول تو سلامت ہے اور انڈے کی زردی اور سفیدی غائب ہو گئی ہے۔ کیمرہ عدالت میں بیٹھے ہنستے ہوئے لوگوں پر چارج جج: آڈر… آڈر… کیمرہ منٹو پر کلوز ہوتا ہے منٹو:اب میں زیادہ تفصیل میں جانا نہیں چاہتا، آپ سے صاف کہے دیتا ہوں کہ منٹو ایسا ون ٹو آدمی میں نے اپنی زندگی میں کبھی نہیں دیکھا جسے اگر جمع کیا جائے تو وہ تین بن جائیں۔ کیمرہ ہنستے ہوئے لوگوں پر چارج/ منٹو ان لوگوں کی طرف گھوم کر دیکھتا ہے۔ پھر اپنی بات کہنا شروع کرتا ہے منٹو:یوں تو منٹو کو میں اُس کی پیدائش ہی سے جانتا ہوں … ہم دونوں اکٹھّے ایک ہی وقت گیارہ مئی ۱۹۱۲ء کو پیدا ہوئے… لیکن اس نے ہمیشہ یہ کوشش کی ہے کہ خود کو کچھوا بنائے رکھے، جو ایک دفعہ اپنا سر اور گردن چھپا لے تو آپ لاکھ تلاش کرتے رہیں ‘ اس کا سراغ نہ ملے… لیکن میں بھی آخر اس کا ہمزاد ہوں، میں نے اُس کی ہر جنبش کا مطالعہ کر ہی لیا ہے۔ کیمرہ بیٹھے ہوئے لوگوں میں سے ایک پر چارج/وہ آدمی ہاتھ اٹھاتا ہے۔ آدمی: منٹو صاحب، یہ بتائیے آپ افسانہ نگار کیسے بنے کیمرہ منٹو پر چارج لیجئے، اب میں آپ کو بتاتا ہوں کہ یہ خر ذات افسانہ نگار کیسے بنا… نقاد بڑے لمبے چوڑے مضمون لکھتے ہیں ‘ اپنی صلاحیت کا ثبوت دیتے ہیں، شوپین ہاور، فرائیڈ، ہیگل، نیتشے، مارکس کے حوالے دیتے ہیں، مگر حقیقت سے کوسوں دور رہتے ہیں۔ منٹو کا کہانی بُننا دو اختلاف کے ٹکراؤ کا نتیجہ ہے… اُس کے والد‘ خدا انہیں بخشے، بڑے سخت گیر تھے اور اس کی والدہ بے حد نرم دل… ان دو پاؤں کے اندر پیس کر یہ گیہوں کا دانا کس شکل میں باہر نکلے گا اس کا اندازہ آپ کرسکتے ہیں۔ اچھا اب اس کی کہانیوں کے بارے میں ’سنیے‘ وہ اوّل درجے کا فراڈ ہے۔ پہلا افسانہ اُس نے ’تماشہ‘ عنوان سے لکھا۔ جو جالیاں والا باغ کے خونی حادثے کے بارے میں تھا۔ یہ افسانہ اُس نے اپنے نام سے نہیں چھپوایا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ پولس کے ہتھے چڑھنے سے بچ گیا۔ سوپر کیپشن منٹو: پہلا چہرہ/ کیمرہ اینکر پر فوکس اینکر :پہلی کہانی ’تماشہ‘ اور وہ بھی جالیاں والے باغ کے خونی حادثے پر۔ منٹو کتنا انقلابی تھا۔ یہ جاننے کے لیے ایک واقعہ سن لیجئے۔ مطالعے کا شوق منٹو کو بچپن سے تھا۔ اور اس جنون کے لیے گھر سے پیسے چراتے ہوئے بھی اُسے شرم نہیں آتی تھی۔ ایک بار امرتسر ریلوے اسٹیشن کے بُک اسٹال سے وہ کتاب چراتے ہوئے پکڑے گئے۔ جب پولس اُنہیں لے کر تھانے جانے لگی تو منٹو زور زور سے انقلاب زندہ باد کے نعرے لگانے لگے۔ چاروں طرف بھیڑ لگ گئی۔ لوگوں نے سوچا کوئی دیش بھگت ہے جسے انگریزوں کے خلاف بولنے کے جرم میں پولس لیے جا رہی ہے۔ آخر پولس کو منٹو کو چھوڑنا پڑا۔ منٹو کتنا انقلابی تھا یہ سردار جعفری کی زبانی سنئے۔ سردار جعفری کی تصویر فریم میں ابھرتی ہے سردار جعفری: منٹو سے میری پہلی ملاقات ایک مشاعرے میں ہوئی۔ جب میں مشاعرے کے بعد باہر نکلا تو ایک ذہین آنکھوں اور بیمار چہرے والا طالب علم مجھے اپنے کمرے میں یہ کہہ کر لے گیا کہ میں بھی انقلابی ہوں۔ اُس کے کمرے میں وکٹر ہیوگو کی بڑی سی تصویر لگی ہوئی تھی۔ اور میز پر چند دوستوں کے ساتھ اُس کی اپنی تصویر تھی جس کے پیچھے گورکی کی تحریر تھی۔ یہ سعادت حسن منٹو تھا۔ اُس نے مجھے بھگت سنگھ پر مضمون پڑھنے کے لیے دیئے۔ وکٹر ہیوگو اور گور کی سے تعارف کرایا۔ میں جب اپنی تعلیم مکمل کر کے لکھنؤ چلا گیا اور منٹو بمبئی، تو اس نے مجھے کئی بار بمبئی بلایا۔ جب میں کمیونسٹ پارٹی کے ہفت روزہ میں کام کرنے کے لیے ۱۹۴۲ء میں بمبئی پہنچا تو میرے اور منٹو کے درمیان ادبی اختلافات کی کھائی کافی وسیع تر ہو چکی تھی لیکن ہماری دوستی میں فرق نہیں آیا۔ اپنے کڑوے کسیلے لمحے بھی آئے اور تیز و تند کیفیت بھی پیدا ہوئی۔ اس رات منٹو بڑی دیر تک باتیں کرتا رہا اور ہم دونوں نے مل کر ایک رسالہ نکالنے کی اسکیم بھی تیار کی۔ شاہد لطیف نے اس کا نام ’نیا ادب‘ تجویز کیا۔ یہ رسالہ پانچ چھ سال بعد لکھنؤ سے نکلا لیکن منٹو اور شاہد لطیف کے بجائے ’مجاز‘ اور سبطِ حسن میرے ساتھ تھے۔ کیمرہ اینکر پر فوکس اینکر:تو یہ منٹو کا پہلا چہرہ تھا۔ ایک انقلابی اور وطن پرست کہانی کار کا چہرہ۔ اور منٹو کو خود بھی اس چہرے پر کوئی اعتراض نہ تھا۔ شروعات میں منٹو روسی ادب سے بھی خاصہ متاثر ہوا۔ مارکس، لینن، اسٹالن، گورکی اور والیٹر کے ادب اور آئیڈیالوجی سے بھی متاثر ہوا۔ شہید بھگت سنگھ اور آزادی کے متوالے کی کہانیوں نے اچانک منٹو کے سوچنے سمجھنے کا انداز بدل دیا۔ اور اچانک منٹو میں ایک دوسرے چہرے کا جنم ہوا۔ یہ دوسرا چہرہ سیاسی اور انقلابی چہرے سے مختلف تھا۔ اب اس کی جگہ جنسی استحصال اور باغی تصورات نے لے لیا تھا۔ کالی شلوار‘ دھواں اور ٹھنڈا گوشت جیسی کہانیوں نے ادب میں ہنگامہ برپا کر دیا اور منٹو پر فحش لٹریچر لکھنے کا الزام لگایا گیا۔ کیمرہ منٹو کی تصویر پر مرکوز اینکر:در اصل منٹو کی کہانیاں بدلے ہوئے وقت کی کہانیاں تھیں۔ فرنگی گھوڑوں کا ظلم اور سسکتی ہوئی غلامی، عورت کا مظلوم چہرہ— منٹو کے اندر کا افسانہ نگار بھلا سب کچھ دیکھتے ہوئے خاموش کیسے رہتا۔ اس لیے منٹو پر جب الزام لگنے شروع ہوئے تو منٹو کو کہنا پڑا— اگر آپ میری کہانیوں کو برداشت نہیں کرسکتے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارا یہ عہد ناقابل برداشت ہو چکا ہے۔ مجھ میں جو خامیاں ہیں وہ اس عہد کی خامیاں ہیں۔ میرے لکھنے میں کوئی قصور نہیں۔ میرے نام سے جس کو وابستہ کیا جاتا ہے وہ در اصل نئے سماج کا قصور ہے۔ میں بدعنوانی نہیں چاہتا۔ میں لوگوں کے خیالوں کو بھڑکانا نہیں چاہتا۔ میں اُس تہذیب کی چولی کیوں اُتارنا چاہوں گا جو خود ننگی ہے۔ میں اُسے کپڑے پہنانے کی کوشش نہیں کرتا کیونکہ یہ درزی کا کام ہے۔ سوپر کیپشن/ منٹو: دوسرا چہرہ/فحش نگار منٹو کیمرہ اینکر پر فوکس اینکر:منٹو کی فحش نگاری پر باتیں ہو گئیں۔ اب چلئے منٹو سے خود جانتے ہیں کہ وہ کتنا بڑا فحش نگار تھا۔ کیمرہ روشنی کے دائرے میں کھڑے منٹو پر چارج/ اس زاویے سے وہاں گیلری میں بیٹھے لوگوں پر بھی کیمرہ پین ہوتا ہے۔ منٹو:منٹو حاضر ہے۔ اور جیسا کہ آپ جانتے ہیں میں منٹو کا ہمزاد ہوں۔ یہ عجیب بات ہے کہ لوگ منٹو کو بڑا غیر مذہبی اور گندہ انسان سمجھتے ہیں، اور میرا بھی خیال ہے کہ وہ کسی حد تک اس درجے میں آتا ہے، اس لیے کہ وہ عام طور پر منٹو گندے موضوعات پر قلم اٹھاتا ہے اور ایسے لفظ اپنی تحریر میں استعمال کرتا ہے، جن پر اعتراض پر گنجائش ہوسکتی ہے‘ لیکن میں جانتا ہوں کہ جب بھی منٹو نے کوئی افسانہ لکھا، پہلے صفحہ کی پیشانی پر 786 ضرور لکھا، جس کا مطلب ہے بسم اللہ… یہ شخص جو اکثر خدا سے انکاری نظر آتا ہے، کاغذ پر مومن بن جاتا ہے… منٹو کاغذی منٹو ہے جسے آپ کاغذی باداموں کی طرح صرف انگلیوں سے توڑ سکتے ہیں ‘ ورنہ لوہے کے ہتھوڑے سے بھی ٹوٹنے والا آدمی نہیں۔ کیمرہ آرٹ گیلری میں بیٹھے لوگوں پر فوکس/ پل بیک کرتے ہی کیمرہ دوبارہ منٹو پر چارج اب میں منٹو کی شخصیت کی طرف آتا ہوں، چند الفاظ میں بیان کئے دیتا ہوں … وہ چور ہے… جھوٹا ہے… دغا باز ہے… مجمع گیر ہے…اس نے اکثر اپنی بیوی کی غفلت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کئی کئی سو روپے اڑائے ہیں ! … اِدھر آٹھ سو لا کر دیئے اور اُدھر چور آنکھ سے دیکھتا رہا کہ وہ کہاں رکھ رہی ہے، اور پھر دوسرے ہی دن اُن میں سے ایک سو کا نوٹ غائب کر دیا… جب اس بے چاری کو اپنے نقصان کی خبر ہوئی‘ وہ نوکروں کو ڈانٹنا ڈپٹنا شروع کر دیتی۔ کیمرہ آرٹ گیلری میں بیٹھی ایک عورت پر چارج عورت (ہنستی ہوئی): یہ کیسے معلوم ہو کہ انسان منٹو کتنا سچا ہے اور فکشن نگار منٹو کتنا جھوٹا کیمرہ منٹو پر چارج منٹو:یوں تو منٹو کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ سچّا ہے، لیکن میں اِسے ماننے کے لیے تیار نہیں … وہ اوّل درجے کا جھوٹا ہے۔ شروع شروع میں اس کا جھوٹ گھر میں چل جاتا تھا، اس لیے کہ اُس جھوٹ میں منٹو کا خاص ٹچ ہوتا تھا، لیکن بعد میں اس کی بیوی کو معلوم ہو گیا کہ اب تک منٹو کو اس خاص معاملے کے مطابق جو کچھ کہا جاتا رہا ہے، جھوٹا تھا… منٹو جھوٹ کفایت سے بولتا ہے، لیکن اس کے گھر والے، مصیبت یہ ہے، اب یہ سمجھنے لگے ہیں کہ اُس کی ہر بات جھوٹی ہے، اُس تل کی طرح جو کسی عورت نے اپنے گال پر سرمے سے بنا رکھا ہو۔ کیمرہ آرٹ گیلری میں بیٹھے لوگوں پر چارج/ دوبارہ منٹو کو کلوز میں لیتا ہے۔ منٹو:وہ ان پڑھ ہے، اس لحاظ سے کہ اُس نے کبھی مارکس کا مطالعہ نہیں کیا، فرائیڈ کی کوئی کتاب آج تک اس کی نظر سے نہیں گذری، ہیگل کا وہ صرف نام ہی جانتا ہے، لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ لوگ، میرا مطلب ہے نقاد یہ کہتے ہیں کہ وہ ان تمام دانشوروں سے متاثر ہے… جہاں تک میں جانتا ہوں، منٹو کسی دوسرے شخص کے خیالات سے متاثر ہوتا ہی نہیں … وہ سمجھتا ہے کہ سمجھانے والے سب چغد ہیں، دنیا کو سمجھنا نہیں چاہئے، اس کو خود سمجھنا چاہئے… خود کو سمجھا سمجھا کر وہ ایک ایسی سمجھ بن گیا ہے، جو سمجھ بوجھ سے بالاتر ہے… وہ بعض دفعہ ایسی اوٹ پٹانگ باتیں کرتا ہے کہ مجھے ہنسی آتی ہے۔ میں آپ کو پورے یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ منٹو، جس پر فحاشی کے سلسلے میں کئی مقدمے چل چکے ہیں صفائی پسند ہے، لیکن میں یہ بھی کہے بغیر نہیں رہ سکتا کہ وہ ایک ایسا پا انداز (پاؤں صاف کرنے والا ٹاٹ یا چٹائی) ہے جو خود کو جھاڑتا ہے پھٹکتا رہتا ہے۔ کیمرہ اینکر پر فوکس اینکر:مشہور افسانہ نگار کرشن چندر نے کہا تھا—اردو میں اچھے افسانہ نگار تو پیدا ہوتے رہیں گے لیکن منٹو دوبارہ پیدا نہیں ہو گا۔ ’کھول دو‘ منٹو کی ایسی کہانی تھی جو سماج کی ننگی سچائیوں کو سامنے لاتی ہے۔ آئیے، اُس کہانی کی چھوٹی سی جھلک دیکھتے ہیں۔ کٹ ٹو اینکر کو کہانی پڑھتے ہوئے دکھایا جائے گا ساتھ میں Visual چلتے رہیں گے۔ سپر کیپشن کھول دو اینکر:ایک دن سراج الدین نے کیمپ میں اُن رضاکار نوجوانوں کو دیکھا۔ وہ لاری میں بیٹھے تھے۔ وہ بھاگا بھاگا ان کے پاس گیا— لاری چلنے ہی والی تھی کہ اُس نے پوچھا: ’’بیٹا… میری سکینہ کا پتہ چلا…؟‘‘سب نے ایک زبان ہو کر کہا : ’’ چل جائے گا، چل جائے گا…‘‘ اور لاری چل پڑی۔ اُس نے ایک بار پھر اُن نوجوانوں کی کامیابی کی دعا مانگی — اور یوں اُس کا جی کسی قدر ہلکا ہو گیا۔ اُسی شام کیمپ میں جہاں سراج الدین بیٹھا ہوا تھا، اُس کے پاس ہی کچھ گڑبڑ ہوئی۔ چار آدمی کچھ اٹھا کر لا رہے تھے۔ اُس نے دریافت کیا تو اسے معلوم ہوا کہ وہ لڑکی ریلوے لائین کے پاس بیہوش پڑی تھی، لوگ اُسے اٹھا کر لا رہے ہیں۔ وہ اُن کے پیچھے پیچھے ہو لیا۔ اُن لوگوں نے لڑکی کو ہسپتال کے سپرد کیا اور چلے گئے۔ وہ کچھ دیر تک ایسے ہی ہسپتال کے باہر گڑے ہوئے لکڑی کے کھمبے کے ساتھ لگ کر کھڑا رہا، پھر آہستہ آہستہ اندر چلا گیا۔ ایک کمرے میں کوئی بھی نہیں تھا، بس ایک اسٹریچر تھا، جس پر ایک لاش سی پڑی تھی۔ وہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتا ہوا بڑھا۔ کمرے میں اچانک روشنی ہوئی۔ اُس نے لاش کے زرد چہرے پر چمکتا ہوا تل دیکھا، اُس نے پوچھا: ’’ کیا ہے؟‘‘ اس کے حلق سے صرف اتنا نکل سکا: ’’جی میں … جی میں اس کا باپ ہوں …‘‘ ڈاکٹر نے اسٹریچر پر پڑی ہوئی لاش کی طرف دیکھا، پھر لاش کی نبض ٹٹولی اور اس نے کہا : ’’ کھڑکی کھول دو…‘‘ مردہ جسم میں جنبش ہوئی…بے زبان ہاتھوں نے ازار بند کھولا…اور شلوار نیچے سرکا دی…بوڑھا سراج الدین خوشی سے چلّایا: ’’ زندہ ہے… میری بیٹی زندہ ہے… ‘‘ڈاکٹر سر سے پیر تک پسینے میں غرق ہو چکا تھا۔ تالیوں کی گڑگڑاہٹ /کیمرہ اینکر پر مرکوز اینکر:تو یہ تھا ہمارا آپ کا منٹو۔ سعادت حسن منٹو۔ منٹو تقسیم کے بعد مجبوری کی وجہ سے پاکستان چلے گئے۔ اور وہاں ۷ برس بعد بیماری کی حالت میں ان کا انتقال ہو گیا۔ یوں منٹو کے مرنے کے بعد منٹو کی شان میں سب نے لکھا۔ لیکن دیویندر ستیارتھی نے جو لکھا— اُس کی نظیر نہیں ملتی۔ کیمرہ دیویندر ستیارتھی کی تصویر پر چارج۔ وائس اوور منٹو خدا کے دربار میں پہنچا تو عرض کیا تم نے مجھے کیا دیا۔ ۴۲سال کچھ مہینے۔ میں نے تو سوگندھی کو صدیاں دی ہیں۔ (تالیوں کی آواز) کیمرہ اینکر پر چارج اینکر:منٹو کو سمجھنا آسان بھی ہے اور مشکل بھی۔ منٹو کی کہانیوں کو صرف فسادات کے تناظر میں یا نفسیاتی تجزیے کے طور پر نہیں سمجھا جا سکتا۔ منٹو فحش نگار ہے لیکن اگر اس کی کہانیوں کا مطالعہ کریں تو جن کہانیوں میں منٹو خود کردار کی حیثیت سے ہے، وہاں وہ شریف نظر آتا ہے۔ یہاں بھی وہ فراڈ ہے۔ وہ ہوتا کچھ ہے۔ دکھاتا کچھ اور ہے۔ تقسیم منٹو کو راس نہیں آئی اور اس کے ٹوبہ ٹیک سنکھ نے نو مینس لینڈ پر دم توڑ دیا— منٹو پاکستان ضرور چلا گیا۔ مرا بھی وہیں۔ لیکن اس کی آتما آخرآخر تک ہندستان میں رہی۔ بیشک دوسرا منٹو نہ ہندستان پیدا کرسکتا ہے اور نہ پاکستان— دونوں ملکوں کے لیے ایک ہی منٹو کافی ہے—فراڈ منٹو— ہلکی میوزک فیڈ آؤٹ .........